کالم “تاریخ میں امر بھٹو کو عدالتی قتل سے سرخرو بھٹو ہو نے تک کا سفر اور پینتالیسویں برسی کا منفرد اعزاز” انتخاب ملک محمد آصف یعقوب ایڈووکیٹ ، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں کے لئے ایک خصوصی تحریر

تاریخ میں امر بھٹو کو عدالتی قتل سے سرخرو بھٹو ہو نے تک کا سفر اور پینتالیسویں برسی کا منفرد اعزاز
تحریر:کاپی پیسٹ// ملک محمد آصف یعقوب ایڈووکیٹ ہائی کورٹC-MPA-PP128جھنگ –

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو آخر کار پرودگار نے دنیاوی عدالت سے انصاف دے کر سرخرو کروا دیا ہے،وجہ پتہ کیا ہے کہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو فتنہ قادیانیت ختم کر کے تحفظ ختم نبوت کے قانون پر دستخط کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ دستخط میں اپنے پروانہ موت پر کر رہا ہے –

مگر میں خطاکار انسان ہوں روز محشر اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے شافع محشر کی شفاعت نصیب فرمائیں گے آخر کار ہوا بھی اسی طرح کہ چشم فلک نے دیکھا مخلوق خدا کی بھلائی اور ملک کے وقار پر جان نچھاور کرنے والے قائد عوام کو لگ بھگ نصف صدی کے تاریخی مغالطوں کے گردش ایام سے نکال کر اپنے حبیب مکرم سے عقیدت اور پختہ یقین کامل کی بناء پر سرخرو ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔

قارئین محترم ذرا غور کیجئے پاکستان کے کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے کروڑوں لوگوں کے مسیحا پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ایٹمی پروگرام اور انیس سو تہتر کے متفقہ آئین کے خالق قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ناکردہ الزام میں تختہ دار پر چڑھا دیا اور ان کا یہ عدالتی قتل عالمی سامراجی سازش اور عوام دشمن قوتوں کی ملی بھگت اور امت اسلامیہ کے خلاف خفیہ گٹھ جوڑ کا شاخسانہ تھا-

کیوں کہ قائد عوام نے اسلامی ممالک کے وسائل کو یکجا کرنے کیلئے تیسرا اسلامی فورم بنانے کیلئے لاہور کے تاریخی شہر میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جو بااثر ممالک کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی اور کیا یہ سچ نہیں اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہینری کسنجر نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے دباؤ میں لانے کی ناکام کوشش کی-

جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سخت گیر موقف کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی اثاثہ قرار دیا اور کہا کہ میں اگر اس سے دستبردار ہو بھی جاؤں تو پاکستانی قوم کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہو گی جس جواب پر امریکہ بہادر کے طاقتور وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کوراستے سے ہٹانے کی دھمکی دی اور بعد میں انہیں ایک مراسلے کے ذریعے نشان عبرت بنانے کا پیغام دیا-

قائد عوام نے وہ سفارتی مراسلہ جو ملک اور قوم کے خلاف ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف ایک بھیانک سازش تھی اس کو قوم کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے راولپنڈی کے مشہور بازار میں کھلی جیپ پر کھڑے ہو کر عوامی اجتماع میں پڑھ کر سنا دیا-

دسری جانب بااثر قادیانی قوتیں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے بدلے کی آگ میں تمام حدود و قیود کو عبور کرنے کیلئے وسائل کا بے دریغ استعمال لانے میں مصروف عمل تھیں اور یوں آخر کار 4اپریل 1979کی نصف شب کو معمارپاکستان اور آئین، ایٹمی پروگرام کے بانی،عوام کے ہر دلعزیز قائد، تیسری دنیا کے انقلابی رہنما ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا-

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے والے جج صاحبان نے خود دباؤ میں آکر انہیں پھانسی پر چڑھانے کا فیصلہ لکھنے کا اعتراف کیااور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم نے بھٹو قتل کیس میں خود اعتراف کیا –

اور کئی انٹرویوز آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور بات کو آگے تسلسل میں بڑھائیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی موت کا فیصلہ لکھنے والے جسٹس صاحبان کی اپنی موت اتنی بھیانک ہوئی اللہ تعالیٰ اس عبرتناک موت سے ہر ذی روح کو محفوظ رکھے کیوں کہ ایک فیصلہ نویس کی جنازے پر مکھیوں نے حملہ کیا تو دوسرے کی موت بیت الخلاء میں واقع ہوئی-

اور تیسرے دماغی توازن کھوجانے کے بعد اپنی کیے کی سزا بھگت کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے یہ ہوتا ہے تاریخ کا انتقام اور مکافات عمل کا نتیجہ۔قائد عوام شہیدذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد مسئلہ کشمیر پر اس وقت رکھی جب معاہدہ تاشقند کے موقع پر پاکستان کے غیر آئینی اور غیر جمہوری حکمران جنرل ایوب خان تقسیم کشمیر کے عالمی ایجنڈے پر پایہ تکمیل تک پہنچانا چاھتے تھے-

اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں سب سے کم عمر، لائق، ذہین فتین، باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان وزیر خارجہ تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے تقسیم کشمیر پر اختلاف کیا اور اس میں اتنی شدت آئی تو انہوں نے وزارت خارجہ سے مستعفیٰ ہو کر عوام کی عدالت میں آنے کا ایسا تاریخی فیصلہ کیا جو آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

محترم قارئین پاکستانی سیاست میں پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے عوامی شراکت اقتدار کے تصور کو عملی طورپر اجاگر کرنے کیلئے انقلابی اصلاحات کیں اورپیپلزپارٹی کا قیام 4 بنیادی رہنما اصولوں پر عمل میں لایا، جن میں (۱) اسلام ہمارا دین (۲) جمہوریت ہماری سیاست (۳) سوشل ازم ہماری معیشت (۴) طاقت کا سرچشمہ عوام شامل ہیں۔ جس پر پیپلزپارٹی آج تک پورے آب و تاب سے قائم ہے-

جس وقت پاکستان میں پسے ہوئے طبقات اپنے حقوق سے نابلد تھے اور انسانیت سے کھلواڑ کیا جاتا تھا اس وقت بھی اللہ رب العزت کو جلال آیا اور اپنی مخلوق کی رہنمائی کیلئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنما کو ان کا رہبر بنانے کا موقع عطاء فرمایا، پاکستان کی خارجہ پالیسی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تعمیر کی گئی مضبوط بنیادوں پر کی فلک بوس عمارت کی صورت میں موجود ہے-

اور ہر آئینی و غیر آئینی حکمران اس سے مستفید ہوتے رہے ہیں، دنیا بھر سے باوقار سفارتی تعلقات قائم کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی محنت آج بھی جادو کی طرح سر چڑھ کر بولتی ہے لیکن محلاتی سازش کے ذریعے انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا اور عالمی سامراجی قوتوں کے خواہشات کی تکمیل میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا-

لیکن آفرین صد آفرین پاکستان و کشمیری عوام کو جنہوں نے اس سیاہ ترین عدالتی فیصلے کو کبھی تسیلم ہی نہیں کیا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی عقیدت کو کبھی ماند بھی نہیں پڑنے دیا۔ گیارہ سالہ طویل ترین مارشل کے خلاف مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو اور دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے صبر آزماء جدوجہد کی، جلاوطنی اور قید و بند کی صعبوتیں برداشت کیں۔

ان کے نظریات پیروکاروں نے ریاستی جبر اور حکومتی مشینری کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ملٹری کورٹس کے علاوہ آنسو گیس، ہتھکڑی، بوگس مقدمات اور انتقامی طرز حکومت کی بھینٹ چڑھتے رہے لیکن کبھی بھی ان کے پایہ استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی اسے کہا جاتا ہے شہید بھٹو ازم اور شہید بے نظیر بھٹو مشن۔

وہ سرفروش نظریاتی جانثار کرہ ارض میں صرف پیپلزپارٹی کی زرخیز زمین میں خود رو پودوں کی طرح اگتے ہیں جو ملک و قوم کیلئے جان جان آفریں کے سپرد کرکے جیے بھٹو، جیے بے نظیر، جیے پاکستان، جیے کشمیر کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہیں۔

قارئین محترم 44سال قبل جس پاکستانی انقلابی سیاست دان کو جھوٹے مقدمے میں سب سے بڑی جس عدالت سپریم کورٹ سے پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا اسی سپریم کورٹ آف پاکستان سے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9رکنی لارجر بنچ نے اس سزائے موت کے فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا ایک اور فیصلہ سنا دیا۔

جو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی بے گناہی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخی مغالطوں کو درست کر کے پیپلزپارٹی اور پاکستانی عوام گڑھی خدا بخش میں مدفون شہیدوں کے ساتھ انصاف کی منہ بولتی دستاویزات ہیں۔ اس فیصلے پر صدر پاکستان آصف علی زرداری کو تاریخ خراج تحسین پیش کرے گی جنہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں قائد عوام کے عدالتی قتل کے خلاف بھٹو ریفرنس کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیا –

جس میں جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی فریق بنے اور آخر کار بارہ سال بعد 6مارچ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ نے متفقہ فیصلے میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر مخالفین کی تنگ نظری سے ڈالی گئی گرد صاف کر دی گئی اور زندہ عالمی شہرت یافتہ ذوالفقار علی بھٹو بعد از موت بھی اس فیصلے سے تاریخ عالم میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔

عوام کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اور ان کی بہادر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو اللہ نے کرہ ارض میں جس عزت سے نوازا اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی، آج جب 4اپریل قائد عوام کی 45 ویں برسی منائی جا رہی ہے-

تو آج پاکستانی قوم کے ہیرو اور آنے والی نسلوں کے رول ماڈل قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو قومی شہید کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ اب صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو 44سال بعد ملنے والے عدالتی انصاف کے بعد انتظامی انصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں قومی شہید قرار دے کر انہیں کے مزار کو سرکاری تحویل میں لے کر جملہ تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹیں دور کریں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے وہ تاریخی جملے آج پھر چاروں صوبوں، ریاست جموں و کشمیر کے باشعور عوام کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں کہ میں ایک آمر کے ہاتھوں مر کر تاریخ میں امر ہونا چاہتا ہوں اور میں منوں مٹی کے نیچے عوام کے فتح مند قدموں کی چاپ سنوں گا۔

قائد عوام اور ان کے پیروکاروں کو وہ امر ہونا بھی مبارک ہو اور فتح مند قدموں کی چاپ بھی مبارک ہو۔”پاکستان زندہ باد، پیپلزپارٹی زندہ باد جمہوریت زندہ باد، آمریت مردہ باد“
آج معروف شاعر حبیب جالب کی کلام کا یہ شعر بھٹو ریفرنس کے عدالتی فیصلے پر ہوباہو صادق آ چکا ہے۔

یہ کیا کیا لوگوں کہ سر راہ تم نے کس کو کھوہ دیا لوگوں
سلا دیا جسے موت کی نیند نے جگائے گی اسے حالات کی صدا لوگوں

Leave a Comment