ویران ہوتی دنیا۔۔۔۔ یا آباد ہوتی دنیا۔ ۔۔۔۔؟
احساسات و جذبات سے خالی اور عاری ہوتی دنیا کا تصور کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ ویران دنیا سے مراد آپ ایسی دنیا کو دل سے نکال دیں جس میں اجڑی پجڑی بستیاں ہوں گی، کھنڈرات ہوں گے یا ذی روح نام کی کسی چیز کا وجود نہ ہوگا۔ بلکہ میں اُس ویران دنیا کی بات کر رہا ہوں جس کو سُن کر حیران و ششدر رہ جائیں گے۔
اگر موجودہ ٹیکنالوجی اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو اس کرہ ارض پر تمام ترذی روح کی موجودگی کے باوجوداور آسائشوں کے باوجود ویرانی، اداسی اور بے مروتی چھائی رہے گی۔
اور وہ ویرانی کیا ہو گی ۔۔۔ وہ ویرانی یہ ہوگی کہ انسان، انسان سے جُدا ہو جاۓ گا۔سب اپنی ہی زندگی کی تنگ چاردیواری میں محدود ہو کر رہ جائیں گے۔
جب ہم خود تک محدود ہو جائیں گے تو فطرت کو کھو بیٹھیں گے۔تو پھر فطرت اُس کا انتقام لے گی۔
ان سب کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ کہ جتنا ہم ڈیجیٹلائزڈ ہوتے جائیں گے کسی قدرفطرت سےبھی دُور ہوتے جائیں گے۔اور خاص طور پر اتنا ہم اپنی ذات سے دُور ہوتے جائیں گے۔
انٹر نیٹ کا آنا جہاں پر بہت سی سہولیات لے کر وارد ہوا ہے۔وہاں پرنقصان یہ کیا ہےکہ انسان کو ذہنی طور پر مکمل اپنےحصار میں بھی لے چکا ہے۔ انٹر نیٹ کا آنا تھا کہ آن لائن پیسہ کمانے کا رواج عام ہو گیا۔انسان کو ایک جگہ پر محدود کرنے کا اس سے بڑا اور کوئی ہتھیار نہیں ہے۔
اور اوپر سے لوگوں کی ذہنی و جسمانی توانائی کو صرف پیسہ کمانے پر محدود کر دیا گیا ہے۔نظریاتی قوم کو پیسے کی دوڑ میں لگا دیا گیا اور ہم اس دوڑ میں شریک ہو گئے۔آج ہر کوئی پیسے کے پیچھے لگا ہوا ہے چاہے کوئی امیر ہے یا غریب۔ امیر کو مال کم ہو جانے کی فکر اور غریب کو آنے والے کل کی فکر نے غافل کررکھا ہے۔
نوجوان نسل کا ایک ہی مقصدِ حیات بن کے رہ گیاہے کہ صرف پیسہ کمانا ہے۔اسی بات کا فائدہ آن لائن کام کروانے والوں نے اُٹھایا۔نوجوان کا خود کو ایک کمرے میں بند کر کے رات کے تین، چار بجے تک جاگنا اور دیر تک سونا فطرت کے اصولوں کے برعکس ہے۔یہ پیسہ آپ کی زندگی کا سکون نہیں ماپ سکتا ۔
میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ پیسہ زندگی کی ضرورت نہیں ہے ۔پیسہ بھی ضروری ہے زندگی کے لیے۔۔ صرف پیسہ ہی ضرورت نہیں ہے۔۔جو کہ ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے غور کرنا پڑے گا۔ ہماری میراث یہ نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آگے آنے والی دنیا میں ویرانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتی ۔ ہر کوئی خود تک محدود ہونے جا رہا ہے ۔ جب تک ہم فطرت کو تسخیر نہیں کریں گے ہم حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔۔پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص اورعلاج کے لیےجدیدآلات کےذریعے انجیوگرافی، سی ٹی سکین،بائی پاس،آٹوپاسی اور ٹرانسپلانٹیشن جدید ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔ ابھی تک اس میں کہیں نہ کہیں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انسانی ہاتھ میں ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ٹیکنالوجی خودکاری اور خودانحصاری کی طرف بڑھ کر انسانی عمل دخل کی ضرورت سے آزاد ہو جائے گی۔
اس سارے عمل میں انجانا خوف پنہاں ہے۔ وہ یہ کہ بالفرض وار ٹیکنالوجی آنے والے دور میں انسانی فوج کو ترقی یافتہ ممالک میں مکمل طور پر روبوٹس اور خودکار ڈرونزسے بدل دیا جاےگا۔ اس وقت ہماری دنیا میں رائج جنگی قوانین، مسلح مزاحمت کا عالمی نظام اور جنگی اخلاقیات کا نظام کیسے احساس مروت کو کچل دے گا اس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔
مکمل طور پر خودکار ڈرونز اور روبوٹس پر مشتمل فوج جب کسی انسانی بستی میں اترے گی تو مسلح مزاحمت کاروں، فوج، عام شہریوں، بیماروں، بچوں اور بوڑھوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہوگا۔اگر نیا نظام؛ جنگ میں پیش آنے والے حادثات کی روشنی میں تشکیل دیا جاتا ہے تو یقینی طور پر فاتح ہی اپنی مرضی کا نظام لائے گا اس وقت جدید ٹیکنالوجی سے محروم انسانی گروہ اپنے حقوق اور شرائط کے لیے خودکار ٹیکنالوجی کے نظام سے کس قدر متاثر ہوں گے۔
اس کی دھندلی سی تصویر ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب تلاش کیے بغیر ٹیکنالوجی کی مستقبل میں ترقی انسانی زندگی کی مجموعی بقا کو تحفظ دینے کے مسئلے پر خوف کی صورتحال بھی پیدا کرتی ہے۔
ٹیکنالوجی یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ترقی مثبت تبدیلوں کے ساتھ ساتھ منفی اثرات سے بھی بھرپور ہے۔ اور یہ اثرات ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی پر ابھی سے دکھائی دے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو مارکیٹ میں لانے والے دماغی طور پر بھی عہد حاضر میں یا بعض صورتوں میں اپنے عہد سے بھی آگے کی دنیا میں جی رہے ہیں اور اسے صرف استعمال کرنے والے جن کی اکثریت کا تعلق اس ٹیکنالوجی کے بنانے سے نہیں ہے بلکہ وہ صرف صارفین کے زمرے میں آتے ہیں۔ صارفین کی ایک بڑی اکثریت کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اپنے عہد سے بچھڑی ہوتی ہے اسی لیے انسانوں کی ان دو اقسام کے ہاں جدیدیت کے اثرات بھی مختلف اور بعض صورتوں میں متضاد ہوتے ہیں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ہیومین انٹیلیجنس پر سبقت ہر دو صورتوں میں ایک نئی دنیا ہو گی۔ جس میں آج کے عہد کی بہت ساری سچائیاں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گی اور انسانوں کے وہی گروہ بقا کی جنگ میں کامیاب ہوں گے جو نئے عہد کی نئی سچائیوں سے مطابقت رکھنے کے اہل ہوں گے۔ یہ بھی بہت حد تک ممکن ہے کہ قومی ریاستوں کا وجود سرے سے ہی مٹ جائے یا پھر آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ہیومین انٹیلیجنس ایک دوسرے پر سبقت لینے کی غرض سے نئی دنیائیں دریافت، تخلیق یا آباد کر لیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گا۔ اور اس سارے عمل میں بہت سارے رجحانات، تصورات اور خیالات ہمیشہ کے لیے حرف غلط کی طرح مٹ جائیں گے۔ واللہ عالم بالصواب۔۔۔
ویران ہوتی دنیا۔۔۔۔ یا آباد ہوتی دنیا۔ ۔۔۔۔؟
احساسات و جذبات سے خالی اور عاری ہوتی دنیا کا تصور کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ ویران دنیا سے مراد آپ ایسی دنیا کو دل سے نکال دیں جس میں اجڑی پجڑی بستیاں ہوں گی، کھنڈرات ہوں گے یا ذی روح نام کی کسی چیز کا وجود نہ ہوگا۔ بلکہ میں اُس ویران دنیا کی بات کر رہا ہوں جس کو سُن کر حیران و ششدر رہ جائیں گے۔
اگر موجودہ ٹیکنالوجی اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو اس کرہ ارض پر تمام ترذی روح کی موجودگی کے باوجوداور آسائشوں کے باوجود ویرانی، اداسی اور بے مروتی چھائی رہے گی۔
اور وہ ویرانی کیا ہو گی ۔۔۔ وہ ویرانی یہ ہوگی کہ انسان، انسان سے جُدا ہو جاۓ گا۔سب اپنی ہی زندگی کی تنگ چاردیواری میں محدود ہو کر رہ جائیں گے۔
جب ہم خود تک محدود ہو جائیں گے تو فطرت کو کھو بیٹھیں گے۔تو پھر فطرت اُس کا انتقام لے گی۔
ان سب کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ کہ جتنا ہم ڈیجیٹلائزڈ ہوتے جائیں گے کسی قدرفطرت سےبھی دُور ہوتے جائیں گے۔اور خاص طور پر اتنا ہم اپنی ذات سے دُور ہوتے جائیں گے۔
انٹر نیٹ کا آنا جہاں پر بہت سی سہولیات لے کر وارد ہوا ہے۔وہاں پرنقصان یہ کیا ہےکہ انسان کو ذہنی طور پر مکمل اپنےحصار میں بھی-
شیخ غلام مصطفٰی سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز 923417886500 +