سانحہ گجرات… ماں محبت یا ماتم….. تحریر :…. ڈاکٹر اعجاز علی چشتی

✨ فکرِ اعجاز

فکرِ اعجاز… لفظوں میں محبت، فکر میں روشنی، اور نیت میں اخلاص کا پیغام۔
✍️ تحریر: ڈاکٹر اعجاز علی چشتی

سانحہ گجرات

ماں: محبت یا ماتم؟

زمین نہ پھٹی، آسمان نہ گرا، مگر دل ضرور ٹوٹ گیا…
وہ صبح، جو رات کی ظلمت سے بھی زیادہ سیاہ تھی۔
ایک ماں… جس کے دامن میں محبت ہونی چاہیے تھی،
اس نے اپنے ہی جگر گوشوں کو موت کی نیند سلا دیا —

صرف ایک جھوٹے خواب، ایک فریبی وعدے، اور ناپاک تعلق کی خاطر۔

یہ صرف ایک فرد کا سانحہ نہیں،
یہ پورے معاشرے کی روح کا ماتم ہے۔
یہ سانحہ گجرات نہیں، انسانیت کی شکست ہے۔
ایک گھر تباہ ہوا، اور پورا معاشرہ انتشار میں ڈوب گیا۔

⚠️ سماجی زوال کی جھلکیاں:

اب مرد ہو یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی —
شادی کو وقتی بندھن سمجھ لیا گیا ہے۔
جیسے ہی دل اُچاٹ ہوا، اور کسی موقع پر دل کو کوئی اور بھا گیا —

تو اسی لمحے دوسرے کی بانہوں میں پناہ کو نجات سمجھا جاتا ہے۔
نہ اولاد کی پروا، نہ رشتوں کی لاج،
چند لمحوں کی چاہت کے لیے ایک مکمل گھر قربان کر دیا جاتا ہے۔

طلاق کو فوری حل، اور دوسرا رشتہ نئی زندگی کا دروازہ سمجھ لیا گیا ہے —
ایک گھر کو ویران کر کے فوراً دوسرے کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے۔

کنوارے لڑکے اور لڑکیاں بھی اب یہی سوچ لیے پھرتے ہیں —
چھپ کر، یا علی الاعلان کورٹ میرج کر کے سمجھتے ہیں کہ سب کچھ پا لیا،
ماں باپ، خاندان، اور سماج کی پروا کیے بغیر —

جیسے انہیں کوئی روکنے والا ہی نہیں۔
اب گھر کسی کے کنٹرول میں نہیں رہا،
نہ ضمیر کا، نہ قانون کا، نہ محبت کا۔

لمحۂ فکریہ:

قرآنِ مجید میں ربِ کائنات فرماتا ہے:

> “اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ بیشک ان کا قتل بڑا گناہ ہے۔”
(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 31)

سوچیے، جب صرف غربت کی بنیاد پر اولاد کو مارنا اتنا بڑا جرم ہے،
تو لذت، ہوس، اور خودغرضی کی بنا پر قتلِ اولاد کتنا سنگین ہو گا؟

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

> “تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔”
(صحیح بخاری و مسلم)

یعنی:

ماں باپ سے ان کی اولاد کے بارے میں،
اساتذہ سے ان کے شاگردوں کے بارے میں،
حکمرانوں سے ان کے عوام کے بارے میں سوال ہو گا۔

یہ جرم صرف قتل نہیں،
یہ امانت میں خیانت ہے —
اور اس کا حساب دنیا میں بھی دینا ہو گا اور آخرت میں بھی۔

کیا کیا جائے؟

1. تربیت کی ازسرِنو بنیاد رکھی جائے۔
بچوں کو صرف دنیا کے نہیں، دل کے آئینے بھی دیے جائیں۔

2. دینی اور اخلاقی تعلیم کو دوبارہ زندگی دی جائے۔
کتابی علم کے ساتھ کردار کی روشنی بھی ضروری ہے۔

3. ⚖️ قانون کو خواب نہیں، حقیقت بنایا جائے۔
مجرم قانون سے نہیں، قانون مجرم سے طاقتور ہو۔

4. میڈیا کو بگاڑ نہیں، اصلاح کا ذریعہ بنایا جائے۔
سکرین پر گندگی نہیں، روشنی آنی چاہیے۔

لمحۂ صداقت:

یاد رکھ…
جو کسی بے قصور کو ناحق ستائے گا،
اس کے لیے دنیا و آخرت کا سکون چھین لیا جائے گا،
اور اس کے حصے میں صرف دردناک عذاب ہو گا۔

> “اور جو کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے، تو اس کا بدلہ جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اللہ اس پر غضبناک ہو گا، اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرے گا۔”
(سورۃ النساء، آیت 93)

آخری بات:

ماں صرف ایک رشتہ نہیں،
انسانیت کا پہلا مدرسہ ہے۔
جب یہ مدرسہ ویران ہو جائے،
تو معاشرے میں درندے جنم لیتے ہیں، انسان نہیں۔

آئیے، ہم سب عہد کریں:
اپنی نسلوں کو صرف مال و دولت نہیں،
ایمان، اخلاق اور محبت کا سرمایہ دیں۔
کیونکہ جو قومیں صرف دنیاوی خواب دیتی ہیں،
وہ انسان نہیں، مشینیں پیدا کرتی ہیں… یا درندے۔

دل چیرتا ایک شعر:

جنہیں تو نے رُلایا ہے، ستایا ہے زمانے میں —
وہی بن کے تماشہ تیری دنیا میں رلائیں گے۔

شیخ غلام مصطفیٰ سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز نیٹ ورک 923417886500 +وٹس آپ

Leave a Comment