تحریر: ملک صبورکھوکھر
“تمام نمائندے میرے اپنے ہیں”
علاقائی سیاستدانوں کی کارکردگی پربحث چل رہی ہے کہ فلاں خاندان اقتدار کی کرسی پراتنے عرصہ قابض رہا اورفلاں خاندان اتنے عرصہ۔ مزیدبراں ان کی کارکردگی کا معیارکیا رہا۔اس بحث پر خاموش رہنا صحافتی نقطہ نگاہ سے خیانت اور چشم پوشی منافقت ہوگی۔
کون کس قدر،کتنا عرصہ اقتدار میں رہا اور کیاکیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے اس پر بحث کرنا سیاسی حلقوں میں اگر بھونچال لانے کے مترادف نہیں تو کم از کم ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکنے کی غلطی ضرور ہوگی۔ مگر حقائق پرسے پردہ ہٹانے کی جسارت کرناعین انصاف پسندی ہے۔
غرض عدالت، عرض کرتا چلوں کہ عاجز کی اس تحریرکاتعلق نہ تو کسی سیاسی گروپ کی تحقیروتحضیک کرنا مدعاو منشا ہے اور نہ ہی کسی کی تعریف وتوصیف ہے۔
فقط سوالیہ انداز میں ایک سرسری ساجائزہ ہے جس کا تعلق اپنی اوراپنے معاشرہ کی اصلاح سے ہے۔اگرکہیں غلط ہوں تو اصلاح کا متمنی ہوں۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک سیال، سادات، اعوان خاندانوں کے چشم وچراغ مختلف ادوار میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے ہیں۔اور آج بھی انہی خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔
تحریر ہذا میں بلا تفریق اس بات کا جائزہ لینے کی سعی کی جائےگی کہ کس کےدور اقتدار میں عام آدمی کی معیار زندگی میں کس قدر اضافہ ہوا جوکہ سیاست کامدعاومقصد ہوتاہے۔ سیاست کا اولین مقصد ہی لوگوں کے معیار زندگی کوپروان چڑھانا،عوام کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرنا ہوتی ہے۔ ہم اپنے نمائندے منتخب ہی اس غرض سے کرتے ہیں کہ اجتمائی مفاد کی نمائندگی کریں اور عوام کے موقف کو ایوان بالا تک پہنچائیں۔
عوام کے موقف کو حکام بالا تک پہنچانے میں ہمارے نمائیندے کہاں تک کامیاب ہوئے یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔ ان حقائق کے لحاظ سے ان نمائیندوں کو بطورخادم کے کام کرنا چاہئیے نہ کہ عوام پر بطور آقا مسلط ہو جائیں۔ اگر عوام میں کچھ لوگ بطورآقا سمجھنے کی سطحی سوچ رکھتے ہیں تو غلطی پر ہیں۔
ہمیں اس سے رتی بھر سروں کار نہیں کہ کون کتنا عرصہ اقتدار کے ایوانوں پر راج کرتا رہا اور کون حزب اختلاف میں رہا۔ لیکن ہمارے منتخب شدہ نمائندے عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنےکے مقصدکے حصول میں کس قدر کامیاب رہےاس کاجائزہ لینا تحریر ہذا کا مقصود ہے۔اور پوری دیانتداری سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالات بدلنے کے لیے سوچ کو بدلنا پڑتا ہے اور سوچ اس وقت بدلتی ہے جب زاویہ نگاہ بدلتا ہے۔زاویہ نگاہ اکثر اوقات قائدین اپنے نظریات سے بدلتے ہیں۔ بدقسمتی سے اگرقائدین کی سوچ بھی سطحی نوعیت کی ہو تو عام آدمی کی سوچ کے معیار کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔
“آئینسٹائین”نے کہا تھا کہ “ہم جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ان مسائل کو سوچ کی اسی سطح کے تحت حل نہیں کیاکرسکتے، سوچ کی جس سطح نے ان مسائل کو تخلیق کیا ہوتا ہے” ۔”سٹیفن آرکوے” کے مطابق “اگرہم وہی کچھ کرتے رہیں جو کچھ ہم کر رہے ہیں تب ہم وہی کچھ حاصل کرتے رہیں گے جو کچھ ہم حاصل کر رہے ہیں”۔ ان افکار کی روشنی میں
ہم اپنے علاقہ کی سیاست اوران میں موجود سیاستدانوں کے دور کو یہاں پرکھیں تو تمام تر صورتحال واضح ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنےآ جاتی ہے مگر پھر بھی ذرا ایمانداری سے اس سوال کا جواب دیجیے کہ ہمارے نمائندوں نے کیا اپنے اختیارات کو عوام کی فلاح و بہبود میں استعمال کیا؟کیاان مسیحوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کا حق ادا کیا؟ یااپنی ذاتی زندگی کی آسائشوں اور اختیارات میں اضافہ کی خاطر دوڑدھوپ کرتے رہے۔
معذرت کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ عوام کے ووٹوں سے طاقت حاصل کرچکنے کے بعد ایسے حالات پیدا کردیے جاتےہیں کہ عوام جن کو اقتدار کے تخت پر بٹھاتی ہے۔انہی طاقتورطبقوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے دن رات جتن کرتی نظر آتی ہے۔جتنے الیکشن گزر چکے ہیں کسی الیکشن میں بھی عوام نے اس خوف سےآزادہو کرووٹ ڈالا ہوتوبتاؤ۔آج بھی عوام نمائیندوں کی کارکردگی، صلاحیت اور قابلیت کو سامنے رکھ کر ووٹ ڈالنے کی بجائے اس خوف سے ووٹ دیتی ہے کہ کہیں چندشرپسندعناصر سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
پہلے چوری، نقب زنی اور ڈاکہ زنی کا خوف تھا بعد میں کورٹ کچہری اور تھانہ کلچر سے خوف زدہ کیا جاتارہا۔اب غربت و افلاس، بچوں کےتاریک مستقبل اور اغوا برائے تاوان سے ہراساں کرنے کا حربہ اختیارکیا جارہاہے۔انصاف کا تقاضہ تو یہ بنتا ہے کہ عوام نمائیندوں کی صلاحیت اور قابلیت کو سامنے رکھ کر ووٹ دیتے مگرحقیقت اس کے برعکس ہے۔
سیاست کا معیار اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہرذی شعور شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ ملکی ادارے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر تشکیل دیے جاتے ہیں اورعوام کے حقوق عوام کی دہلیز پر پہنچائے جا سکیں مگر افسوس سے کہنے جا رہا ہوں کہ کسی بھی شعبہ کو آزادانہ کام نہ کرنے دیا گیا اور نہ کرنے دیا جا رہا ہے۔ہمیشہ سے اقتدار پر قابض بیشترحکمرانوں نے اداروں کو زیر تسلط رکھا فقط اپنی اجارہ داری اور اپنے مخالفین پررعب طاری کرنے کے لیے اداروں کو استعمال کیا گیا خود کار کام کرنے دیا جاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔یہاں درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر کلیدی عہدوں پر بیٹھے تمام ملازمین کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کیا جاتا رہا ہے –
یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے حالات بدلے ہیں اور نہ ہی بدلنے کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے جبکہ اب یہ بحث بالکل فضول ہے کہ کس کو کتنا عرصہ ملا اور کتنا عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں گزارا۔ اس لحاظ سے توتمام نمائندے ایک ہی صف میں کھڑے نظرآتے ہیں اب کس کی حمایت میں لکھیں اور کس کی مخالفت میں، کس کی کارکردگی کے ڈنکے بجائیں،کس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں،
کس کی ذات میں کیڑے نکالیں، کس کے سر پر سہرےباندھیں،کس کو سرعام شاباشی دیں، کس کے ہاتھوں پر کیے جانے والے ارمانوں کا خون تلاش کریں،کس کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر بلائیں لیں اورکس کو بیچ بازار ننگا کریں۔
باالخصوص شورکوٹ کی سیاست میں سیاسی کرداروں کا تجزیہ کریں توسیال خاندان کے سپوت خان محمدعارف خان کا دور اقتدار قیام پاکستان سے قبل 1946 سے شروع ہوتا ہوا 1985تک آتا ہے۔ اس عرصہ میں موصوف اور آپ کے خاندان کے مختلف لوگ مختلف عوامی عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے بعد 1970 سے صاحبزادوں کا دور اقتدار شروع ہو جاتا ہے۔ جو تاحیات چل رہا ہے۔اسی طرح صوبائی نشستوں پر بھی کم و بیش سیالوں ہی کی اجارہ داری رہی۔
ایک دفعہ چودھریوں کو اور دو دفعہ کاٹھیا خاندان کو اقتدار کا پروانہ ملا۔ ان ہستیوں کا سیاسی پلیٹ فارم کونسا رہا اس سے سروکار نہیں۔ ہمارا مدعا عام آدمی کے معیار زندگی کو اوج دینے سے ہے۔یہ کردار کسی بھی پلیٹ فارم سے اور کسی بھی حیثیت سے نبھایا جاسکتا تھا۔ بلا شبہ اپنے تہی اس ذمہ داری کو کماحقہ نبھانےکی کوشش کی جاتی رہی ہےمگر موجودہ حالات سے واضح ہے کہ یہ سعی ناکافی ہے۔
دیوانگی یعنی پاگل پن کی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی طرز کے کام کرتے رہنا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا۔