عالمی یوم فالج…. فالج سے انسان کیسے بچ سکتا، فالج کے بعد کیا کیا مزید بیماریوں کا شکار انسان ہو سکتا ہے….. معروف ماہر امراض دل…. ڈاکٹر اطہر راؤف رانا کی خصوصی تحریر… رپورٹ ڈاکٹر ریاض احمد نول ،ڈاکٹر غلام اللہ فاروقی ،حکیم طاہر محمود

عالمی یوم فالج

تحریر:ڈاکڑ اطہر روف رانا (ماہر امراض دل)

ہر سال دُنیا بَھر میں29 اکتوبر کو ’’عالمی یومِ فالج‘‘ منایا جاتا ہے تاکہ اِس سے متعلق معلومات عام کر کے قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ، زندگی بَھر کی معذوری سے بھی محفوظ رہا جاسکے(R)۔اِمسال عالمی یومِ انسدادِ فالج ’’Togather we are greater than stroke‘‘ یعنی’’ ہم ایک ساتھ مل کر، فالج سے زیادہ ہیں‘‘کے سلوگن کے تحت منایا جا رہا ہے

۔بلاشبہ، بیماری اور شفا اللہ ربّ العالمین کی جانب سے ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ زندگی و موت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔تاہم، صحت مند زندگی گزارنا اور صحت مند رہنے کے لیے اقدامات کرنا بھی دینی تعلیمات کا ایک اہم ترین حصّہ ہے، جب کہ امراض سے بچاؤ، بروقت تشخیص اور بہتر علاج کے لیے آگہی ہی بنیادی کلید ہے۔

فالج، جسے عرفِ عام میں برین اٹیک یا ’’دماغ کا دَورہ‘‘ کہا جاتا ہے، ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس کے اٹیک کے بعد جان بچ بھی جائے، تب بھی مستقل معذوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جب کہ بعض مریضوں میں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، فالج کے بعد مریض کو جس قدر جلد طبّی نگہہ داشت مل جائے، بحالی کے امکانات اُتنے ہی بڑھ جاتے ہیں،

مگر افسوس کہ دُنیا بَھر میں، بشمول ترقّی یافتہ مُمالک، فالج سے متعلق معلومات کا فقدان ہے۔ بالخصوص، اِس سے بچاؤ کے عوامل پر تو بہت ہی کم توجّہ دی جاتی ہے۔یہی سبب ہے کہ فالج سے شرحِ معذوری اور اموات میں کئی گُنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے مطابق، دُنیا بَھر میں ہر سال کم و بیش ایک کروڑ، تیس لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً پچاس لاکھ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، جب کہ زندہ بچ جانے والے فالج کے قلیل یا طویل مدّتی اثرات سے متاثر ہوتے ہیں، جن میں بولنے میں دقّت پیش آنے اور چلنے پِھرنے سے لے کر مختلف طبّی مسائل شامل ہیں۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ درمیانی عُمر کے افراد میں فالج کی شرح برطانیہ یا امریکا کے مقابلے میں پاکستان اور دیگر جنوب ایشیائی مُمالک میں5گُنا زائد ہے، جب کہ عمومی طور پر بھی فالج کی شرح ترقّی پذیر ممالک میں بلند ہے، جس کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فالج سے متاثرہ ہر تین میں سے دو افراد کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک سے ہے۔

اگر پاکستان کی بات کریں،تو یہاں نوجوان طبقے، خاص طور پر خواتین میں فالج کی شرح بلند ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق، ہر پانچ میں سے ایک خاتون کو فالج کا خطرہ لاحق ہے، جب کہ فالج سے انتقال کر جانے والے دس افراد میں نصف سے زائد(چھے) خواتین ہوتی ہیں۔ذرا سوچیے،

اگر کسی صبح بیدار ہونے پر یا دِن کے کسی پہر اچانک آپ کے جسم کا کوئی حصّہ خدانخواستہ مفلوج ہو جائے یا بات چیت میں دشواری پیش آئے، تو یہ ایک لمحہ آپ کی پوری زندگی بدل کر رکھ سکتا ہے، لیکن اگر فالج کے عوامل، ان سے بچاؤ اور علامات سے متعلق بنیادی معلومات ہوں،

تو یہ آگہی آپ کو فالج اور اس سے ہونے والی کئی پیچیدگیوں سے بچا سکتی ہے۔فالج کے عوامل میں سرِ فہرست بلند فشارِ خون، تمباکو نوشی، موٹاپا، تساہل پسندی، خون کی شریانوں کا تنگ ہونا، ذیابطیس اور کولیسٹرول کی زیادتی وغیرہ ہیں۔

جب کہ دیگر اسباب میں عُمر رسیدگی(عُمر میں اضافے کے ساتھ فالج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں)، غیر متوازن غذا، نشہ آور اشیاء کا استعمال، دِل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، ذہنی و نفسیاتی امراض، تناؤ اور جینیاتی عوامل وغیرہ اہم ہیں۔فالج اور بلند فشارِ خون:فالج کا سب سے اہم سبب بلند فشارِ خون یعنی ہائی بلڈ پریشر ہے۔

۔بلڈ پریشر کے مسلسل بڑھنے، اس حوالے سے درست معلومات اور علاج کے نہ ہونے کا نتیجہ دماغ کا اٹیک یعنی فالج ہے۔ فالج یا تو اُس وقت ہوتا ہے، جب بلند فشارِ خون کے باعث دماغ کے کسی حصّے کی شریان میں خون جمنے سے دماغ میں خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے یا بلندِ فشار خون کے باعث دماغ کی شریان پَھٹ جاتی ہے۔

بلند فشارِ خون کے باعث فالج کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اگر صرف بلڈ پریشر ہی کو 120/80 کے قریب رکھ لیا جائے، تو ہم فالج کی کم و بیش نصف وجوہ سے بچ سکتے ہیں۔ہر قسم کی تمباکو نوشی یا دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال فالج، بالخصوص نوجوانوں میں فالج ہونے کی سب سے اہم وجہ ہے۔

تمباکونوشی کے باعث فالج ہونے کے امکانات میں چھے گُنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے باعث پھیپھڑوں کے ذریعے خون کی شریانوں میں جانے والے نقصان دہ کیمیائی مادّے شریانوں کے خلیات کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور اس نقصان دہ کیمیائی عمل کے نتیجے میں دیگر مسائل کے علاوہ خون کی شریانوں کے نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے

، جو بالآخر دیگر امراض کی وجہ بننے کے ساتھ، فالج کا بھی باعث بنتی ہے۔تمباکو نوشی کے باعث جسم میں کولیسٹرول کی سطح متاثر ہوتی ہے۔ یہ خون میں اچھے کولیسٹرول یعنی HDL کی سطح کم کرتا اور خراب کولیسٹرول یعنی LDL کی سطح بڑھاتا ہے، جب کہ جسم میں ایل ڈی ایل کے اضافے ہی سے دماغ کے اٹیک (فالج) کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ماوے، گٹکے یا مین پوری وغیرہ میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادّے جسم کے کم و بیش تمام ہی نظام متاثر کرتے ہیں، جب کہ نکوٹین سے دل کی دھڑکن میں تیزی آنے کے ساتھ بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اگرچہ فالج کی وجہ بلڈ پریشر بنتا ہے، لیکن بنیادی وجوہ میں تمباکو نوشی بھی جڑ کا کردار ادا کرتی ہے کہ نشہ آور تمباکو کے مختلف کیمیائی مادّے ہی شریانوں کی سکڑن کا باعث بنتے ہیں۔یہ شریانوں کو سخت کرتے ہیں،

جس کے نتیجے میں خون کی روانی میں کمی آتی ہے، جو کہ بلند فشارِ خون یا خون جمنے کا سبب ہے اور پھر اسی سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہےسادہ اور متوازن غذا کا روزہ مرّہ استعمال صحت مند زندگی کی بنیاد ہے۔ فالج کی معلوم وجوہ بلڈ پریشر، شوگر، موٹاپا یا کولیسٹرول ہیں اور انھیں متوازن رکھنے میں روزہ مرّہ غذائی عادات کا بنیادی کردار ہے۔

فالج سے بچاؤ کے لیے مناسب غذائی اشیاء مثلاً سبزیاں، پھل، مرغی اور مچھلی کا اعتدال و میانہ روی کے ساتھ استعمال ضروری ہے۔ ان اشیاء میں سلاد، سبزیوں، پھلوں کا استعمال تناسب کے اعتبار سے، گوشت کے مقابلے میں زیادہ ہونا چاہیے۔چکناہٹ، مرغّن اشیاء سے ہر ممکن حد تک پرہیز، نمک کے بے دریغ استعمال اور میٹھی اشیاء سے اجتناب بھی انتہائی ضروری ہے۔

آج کل بازار میں دست یاب مختلف مشروبات بشمول توانائی بخش مشروبات میں میٹھے کی مقدار انتہائی زیادہ ہوتی ہے، جس کے جسم پر مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں زیادہ تر افراد صرف جسمانی طور پر غیر فعال رہنے کے باعث فالج کا شکار ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر چاق چوبند رہنے سے جسم کا مجموعی نظام بہتر انداز میں رواں دواں رہتا ہے۔

بصورتِ دیگر، غذائی بے احتیاطی کی طرز پر تساہل پسندی بھی ’’زخم پر نمک‘‘ کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہر شخص کو روزانہ کی بنیاد پر جسمانی طور پر حرکت میں رہنا چاہیے۔ ہماری نوجوان نسل میں دیگر امراض کے ساتھ، فالج کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مختلف طبّی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص ہفتے کے پانچ دن صرف آدھا گھنٹہ جسمانی ورزش کرے،

تو فالج کے امکانات میں25 فی صد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ورزش، فالج کے خطرے کے کئی عوامل کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ان اہم ترین عوامل میں بلند فشارِ خون، ذیابطیس، خون میں چربی (کولیسٹرول) کی مقدار میں اضافے کے علاوہ یاسیت اور تناؤ شامل ہیں۔

فالج سے تحفّظ کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو حکومتی سطح پر فالج سے متعلق عام فہم انداز میں آگاہی فراہم کی جائے، کیوں کہ جب تک عوام میں اِس مرض سے متعلق شعور اجاگر نہیں ہوگا، اُس وقت تک وہ فوری علاج کے لیے درست جگہ جانے سے قاصر رہیں گے۔ تاکہ پہلے تو اِس مرض ہی سے بچا جا سکے اور اگر خدانخواستہ کوئی اِس کا شکار ہو بھی جائے، تو بروقت درست علاج ممکن ہو سکے۔

شیخ غلام مصطفٰی سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز 923417886500 +

Leave a Comment