نظام امتحانات اور تعلیمی نظام کی زبوں حالی پر نہایت ہوشربا تحقیقی کالم
تحریروتحقیق: ناصرصبورکھوکھر
“نقل کا ناسور”
رات کے ایک بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میرے ساتھ والےکمرے کی قندیل روشن تھی۔ میں اٹھ کر ساتھ والے کمرے کی طرف گیا، اندر جھانک کر دیکھاتو میرابچہ دسویں جماعت کے پیپر کی تیاری میں منہمک تھا۔ میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ” بیٹا میں نے آپ کو شام کے وقت تنبیہ بھی کی تھی کہ رات کو جلد سوجانا تاکہ نیند پوری ہوجائے،
پیپر دینے میں کوئی دشواری نہ ہواور دماغ پورے طور پر کام کر سکے” مگر میرےبیٹے نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ وہ سمجھتا بھی کیسے، اس پر تو ایک ہی دھن سوار تھی کہ اچھے نمبرز لے کر سرخروئی حاصل کرنی ہے۔ نقل کرنے کا سہارا موجود ہونے کے باوجود، دیانتداری سے امتحان دینے کے جذبے کو میں سرد نہ کرسکا۔
میرے سمجھانے کے باوجودمیرے بیٹے نے مجھے لجاجت سے کہا کہ” ابو بس تھوڑا سا سلیبس رہ گیا ہے ایک بار دوہرائی مکمل ہوتے ہی سوجاوں گا۔
میں اپنے بیٹے کے اشتیاق کوبھانپتے ہوئے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر واپس اپنے کمرے میں آگیا۔
میں سونے کے لئے اپنے بستر پر دراز تو ہوگیا مگر میری نیند کو اس خیال نے اچاٹ کردیا کہ ایک طرف وہ بچے جو بڑی دیانتداری سے اپنی لگن اور دلجمعی سے امتحانات کی تیاری میں مصروف عمل ہیں اور دوسری طرف وہ بچے جو نقل یا دوسرے ذرائع سے پیپر دینے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہےہیں۔
ہم سب ان بچوں کےاستحصال کرنے میں برابر کے شریک نہیں ہیں کیا؟
کیا ان ذہین اور محنتی بچوں کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے؟
مجھےرہ رہ کر اپنےاستاد ہونے پرشرمندگی ہو رہی تھی۔ میں بھی ان اساتذہ میں شامل تھا جو ناجائز ذرائع سے بچوں کے امتحان دلوانے پر ہمیشہ سے سرگرم رہتا تھا۔
مجھے اس پیغمبری پیشہ سے منسلک ہوئے تقریباکوئی بارہ سال گزرنے کو ہیں مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ایک لمحہ بھی دیانتداری سے گزارا ہو۔
میرا ضمیر لگا تار مجھے کچوکے لگا رہا تھا کہ اس پیشہ سے منسلک ہو کر جو روزی روٹی کی خاطر گورنمنٹ سے تنخواہیں وصول کیں، کیا وہ جائز اور حلال ہیں؟
کیا آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کا سامنا کر پاوں گا؟۔
کیا میں اپنی قوم کو منہ دیکھانے کے لائق ہوں؟ کیا میں اپنے بچوں کو حلال رزق کھلا رہا ہوں؟ کیا میں اس بچے کا مجرم نہیں ہوں جورات بھر محنت کرکے کمرہ امتحان میں اس امید سے داخل ہوتا ہے کہ قوم کے محسنوں کے ہاتھ میں میرامستقبل محفوظ اور روشن ہےمگر۔۔۔مگران بیچارے بچوں کو کیا معلوم کہ قوم کے محسن اور رہبر ہی رہزن ہیں جو ان کا استحصال کرنے پر تلے ہیں۔
کیاقیام
ت کے دن شاگرد کا ہاتھ استاد کےگریبان میں نہیں ہوگا؟
آج ملک جس دوہراے پر کھڑا ہے اس کا مجرم میرےجیسا بدعنوان استاد نہیں ہے تو اور کون ہے؟ اس ملک کو نہ کوئی سیاستدان، نہ کوئی بیوروکریٹ، نہ کوئی اسٹیبلشمنٹ کا فرد کمزور کررہا ہے اور نہ کوئی خارجی دشمن کاخفیہ یا ظاہری ہاتھ برباد کررہا ہے۔اگر کوئی مجرم ہے تو فقط میرے جیسا موقع پرست، مفاد پرست، انا پرست اور بزدل استاد ہے۔ آج سے ہی استاد یہ تہیہ کر لے کہ پوری دیانتداری سے پیغمبری پیشہ سے وفا کرنی ہے تو چند سالوں میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
تقریبا سبھی اساتذہ اس کارممنوعہ میں اس وجہ سے ملوث ہوتے ہیں کہ بچوں کے پاس ہونے کی شرح زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ معاشرہ اور حکام بالا میں سرخروئی نصیب ہو۔ انکواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کارکردگی بہتر اور نمایاں ظاہر کی جاسکے۔ حالانکہ گورنمنٹ کی جانب سے فیل شدگان پر انکواری کب سے موخر کردی گئی ہے۔
اس کے باوجود اس ممنوعہ ڈگر پر تقریبا ہم سب امتحانات کے دنوں میں مصروف کار ہوتے ہیں۔ اس قبیہ حرکت میں پرائیویٹ اسکولز کا عملہ بھی برابر کاشریک ہے۔ پرائیویٹ اسکولز کا کمرشلائزڈ رویہ بھی اس سارے عمل کو مہمیز کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ ممنوعہ ذرائع سے پاس ہونے والے بچوں میں بھی اور اساتذہ میں بھی مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ ذہین بچے نفسیاتی ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف وہ اساتذہ جو پڑھانے کی لگن رکھتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ تعلیمی ماحول سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ تحقیقی جستجو نا پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ نئی نئی ریسرچز کو پڑھنا اور ان کو آگے طلبا میں منتقل کرنا تو پہلے ہی الاماشااللہ تھی مگر ان قبیہ حرکات پر تو بالکل اساتذہ کی طبیعتیں اچاٹ ہوچکی ہیں۔
اگر ہم سب اپنے اپنے محاذ پر بیٹھ کر اپنے فرائض کو انجام دیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کر سکیں۔ ہم بھی اپنی مٹی سے مینا وجام پیدا کر ملک و قوم کا وقار بنا لیں گے۔
سیکرٹری تعلیم کی جانب سے، لا اینڈ فورسز کو امتحانات کی کڑی نگرانی کرنے کی ہدایات خوش آئند ہیں۔
ایک وقت تھا جب سکول و کالجز سے پڑھے لکھے، تعلیم و تربیت یافتہ طلبا نکلتے تھے۔ اپنی اپنی دائرہ کار میں طلبا لوہا منواتے تھے۔ آج آپ کو تمام شعبہ جات میں ایک بہت بڑا خلا اور بحران دیکھائی دے گا۔سائنس،مذہب،ادب، طب کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں نامور لوگوں کا تناسب شرمناک حد تک کم دیکھائی دے گا۔
اگر نامور لوگوں کی فہرست نکالیں تو ان میں اکثریت بیرونی ممالک سے ڈگری یافتہ ملیں گے۔ مگراب ملکی اداروں سے پڑھے لکھے لوگ صرف ڈگری یافتہ ریوڑ کی صورت دیکھائی دیں گے۔ اس کی فقط وجہ یہی تھی کہ سکول و کالجز کے انٹرنل امتحانات ہوتے یا بورڈز کے امتحانات ہوتے سب پوری دیانتداری سے وقوع پذیر ہوتے تھے۔ کم و بیش نوے کی دہائی تک بہترین میکانزم کے ذریعے امتحانات منعقد ہوا کرتے تھے۔
فیل اور پاس طلبا کی سزا، جزا کا عمدہ نظام موجود تھا۔ اس سارے نظام کو سبوتاژ کرنے میں کچھ ہاتھ پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کا بھی لگتا ہے۔ جس نے اپنا سٹریکچر کمزور رکھا ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھے بغیر پیپرز میں موجود سوالات کا معیار بلند رکھ دیا گیا۔ اور اوپر سے پاس ہونے کی شرطیہ ریشو بڑھانے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کی طرف سےریٹینشن پر زور دے دیا گیا۔فیل شدگان طلبا پر پوچھ گچھ کردی گئی۔
اس عمل سے بچوں کو اگلی کلاسوں میں منتقل کرنا اساتذہ کی مجبوری بن گیا۔جن بچوں کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا ان بچوں کو بھی زور زبردستی کالجز کی طرف دھکیل دیا جاتا رہا ہے۔مرتا کیا نہ کرتا بیچارے استاد نے نقل کروانے کی ریت ڈال دی۔ سارا زور بچوں کو پڑھانے کی بجائے بچوں کو آوٹ آف لیول پیپرز کو حل کروانے پر صرف کیا جانے لگا۔
پنجاب ایگزامینیشن سسٹم کے پیپرز میں طلبا کی تجزیاتی فکر،جانچنے کے معیار کو اتنا بلند رکھا گیا کہ خود اساتذہ بھی اس طرح کے پیپرز حل کرنے میں ناکام ہوتے دیکھائی دیے۔ جس سے بچوں کے اندر اپنے اساتذہ کی قابلیت پر بھی شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔
ایسے عمل سے اساتذہ کا وقار مجروح ہونے لگا۔بچے پڑھائی سے بیزار ہونے لگے۔اساتذہ جیسے تیسے پیپرز نقل کروا کر پنجاب ایگزامینیشن کو بھیجتے مگر حقائق جانے بغیر اگلے سال اس سے بھی زیادہ مشکل سوالات کے پیپرز اسکولز بھیج دیے جاتے،جس سے نظام امتحان مزید سے مزید تر خراب ہوتا چلا گیا۔ اس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔
اساتذہ کے ہاتھوں قوموں کی تقدیریں پنپتی اور بدلتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ سیلیبس تیار کرنے والے زمینی حقائق کو سامنے رکھیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز صحیح معنوں میں اپنے فرائض سرانجام دیں تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا پیارا وطن اقوام عالم میں حیران کن کردار ادا کرے گا۔ انشاءاللہ
شیخ غلام مصطفٰی سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز 923417886500 +وٹس آپ