اسلامو فوبیا مسلمانوں کیلئے خطرہ قمر عباس بھروانہ، جھنگ ۔۔ رپورٹ آصف سیماب جھنگ

اسلامو فوبیا مسلمانوں کیلئے خطرہ
قمر عباس بھروانہ، جھنگ
یوں تو حق و باطل کے درمیان لڑائی ازل سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حق کے خلاف باطل کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ یوں ہی تا قیامت جاری رہے گا۔آغاز اسلام میں بھی یہ فوبیا موجود تھا جب دارالندوہ میں مکہ کے سردار سر جوڑ کر بیٹھتے تھے کہ کس طرح اللہ کے رسول ﷺ اور اسلام کو بدنام کیا جائے اور اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ وقت کے رسول ؐ کو شاعر اور کاہن تک کہا گیا اور عرب کے قبیلوں میں یہ بات پھیلائی گئی کہ مکہ میں ایک جادوگر ہے جو اس کے زیر اثر آجاتا ہے وہ اپنے آبائی دین کا نہیں رہتا اور اپنے خاندان سے کٹ کر اسی کا ہو رہتا ہے۔ اس کے پاس ایسی چیز ہے جو ماں، باپ، میاں ، بیوی اور بھائیوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیتی ہے
جس کی ایک مثال حضرت طفیلؓ بن عمر دوسی کی ہے۔ جس زمانے میں حضرت طفیل ؓ کا مکہ آنا ہوا قریش کے وہ اشخاص جو لوگوں کو نبی کر یم ؐ کے پاس آنے سے روکتے تھے، ان کے پاس بھی پہنچے اور کہا کہ: ’’تم ہمارے شہر میں مہمان آئے ہو۔ اس لیے ازراہ خیر خواہی تم کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اس شخص نے ہمارے اندر پھوٹ ڈال کر ہمارا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کی زبان میں کیا سحر ہے، جس کے زور سے وہ بیٹے کو باپ سے،بھائی کو بھائی سے،اور بیوی کو شوہر سے لڑادیتا ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ کہیں تم اور تمھاری قوم بھی ہم لو گوں کی طر ح اس کےجادو میں نہ آجائے۔ اس لیے ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ تم اس سے نہ ملو اور نہ اس کی بات سنو۔ غر ض کہ ان لوگوں نے انھیں ہرممکن طریقے سے سمجھا کر نبیؐ کی ملاقات سے روک دیا۔طفیل دوسیؓ نے اس خیال سے کہ نبی کریمؐ کی آواز کانوں میں پڑجائے دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر بالآخر وہ نبی کریم ؐکی زبان سے قرآن کی آیتیں سن کرحیران ہو گئے اور اسلام کی آغوش میں آگئے
اسلامو فوبیا(Islamophobia) مذہب اسلام ، اسلامی تہذیب یا عام طور پر مسلمانوں کے خلاف خوف، نفرت، دشمنی یا نسل پرستی تعصب ہے خاص طور پر جب اسے جغرافیائی سیاسی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسلامو فوبیا ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکژ مسلمان جنونی سمجھےجاتےہیں ۔ جو غیر مسلموں کے بارے متشددانہ نقطہ نظررکھتےہیں
اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بڑھکایا جاتا ہے امریکہ ،کینڈا ،آسٹریلیا، انڈیا، میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کے خوف سے اسلام دشمن عناصر اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی کر کے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پیدا کی جاتیں ہیں۔ 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔ اور نعرہ Bomb the Caaba (کعبہ کو بمب سے اڑا دو) لگایا گیا .اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک دہشت گرد گروہ کے طورپر اور نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج کے تناظر میں یوروپی اور امریکی اقوام اسلام سے خوف زدہ ہوکرسوچتی ہیں اگر اسلامی نظام آگیا تو جمہوریت، آزادی اور تہذیب حاضر کی ساری چمک دمک جاتی رہے گی۔اسلامو فوبیا کی کچھ حقیقی وجوہات بھی ہیں جن میں 11ستمبر 2001 کا حملہ، 17اگست 2017 مراکش کے ایک مسلمان نوجوان یونس ابویعقوب نے بارسلونا کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی پیدل چلنےوالوں پر چڑھا دی جس میں 16 افراد جاں بحق اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے، 2004میڈرڈ کے بمب دھماکے شامل ہیں
اسلامو فوبیا کی وجہ سے ہمارے پیارے نبی ﷺکی شان میں گستاخی،قرآن پاک کی بے حرمتی اور حجاب والی عورتوں کی تذلیل کے واقعات ہوتے ہےجن میں نیوزی لینڈ کی مساجد) کرانسٹ چرچ کی مسجد( میں 49 مسلما ن شہیدکئےگئے، فرانسیسی خاکے کے حق میں ریلی میں قرآن پاک کی بے حرمتی، کعبہ کو بمب سےاڑا دو کا نعرہ ،حجاب والی مسلم خواتین پر انڈیا سمیت مغربی دینا میں حملے شامل ہیں۔دنیا میں ہر سال ہزاروں جرائم اسلامو فوبیاکے ہورہے ہیں صرف برطانیہ میں ملازمت کرنے والے تقریباً 69 فی صد مسلمان پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران کسی نہ کسی شکل میں اسلامو فوبیا یعنی مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے نفرت کا سامنا کررہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں امن سے زندگی گزارنے کا حکم صادر فرماتاہے
( اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو سورہ النحل،آیت ۱۲۵۔
اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔۔سورہ المائدہ،آیت۸
)17:53 اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فسادڈلواتا ہے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے(
پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی پہلے OIC پھر اقوام متحدہ میں بھرپور کوششوں سےانڈیا کی مخالفت کے باوجود مارچ 2022 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی جسے پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے متعارف کرایا جس نےاسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے۔اقوام متحدہ میں اب ہر سال15 مارچ کو ‘اسلامو فوبیا سےنمٹنے کا عالمی دن’ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ۔کینڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈونے اسلامو فوبیاکی مذمت کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیےخصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہےکہ حضرت محمد ﷺ کی توہین آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔ درحقیقت مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کیا ہے جس میں ایک محکمہ بنے گا جو اسلاموفوبیا کے واقعات کا تعاقب کرے گا
اسلامو فوبیا کےسدباب کے لئےمسلمانوں پر انفرادی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ اسلامو فوبیا کے سدبا ب کے لئے ان کو ایسی حکمت عملی اختىار کرنی ہوگی۔جس سے اسلام کا اصل مقصد بھی پورا ہو اور انسانیت کو نقصان بھی نہ پہنچے یعنی انسانیت کی بقاء کا خاص خیال رکھاجائے ۔ ہم قرآن پاک کے مطالعے اور سیرت پاک ﷺ پر عمل کرکے بہتر حکمت عملی بنا سکتےہیں اسلامو فوبیا کو روکنے کے لئے ہمارے سیاسی ، مذہبی ،قائدین، میڈیا ہاؤسز، ادیب اینکرز بیرون ملک مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ اسلام کا اصلی چہرہ متعارف کروانے کے لیے بین المذاہب ، مغربی دنیا کے دانشوروں کے ساتھ وسیع پیمانے پر ڈائیلاگ کریں ، جہاد اور دہشت گردی میں فرق کا واضح کریں اور مسلمانوں کی مظلومیت کا حقائق کے ساتھ بیان کریں ۔ دنیا کو بتائیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐہماری جان ہمارے ماں باپ سےزیادہ ہمیں پیارے ہیں انکی بے حرمتی ہمیں ایسے ہی بری لگتی ہے جیسا کہ کسی بھی دوسرے مذہب کے رہنما کی تذلیل ان کو بری لگتی ہے اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جس کا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہ ہے یہ کسی بھی مذہب یا نسل میں ہوسکتی ہے مگر اس سے اسلام کو نہ جوڑا جائے ۔دوسری طرف مسلم امہ میں یہ بات باور کروانی چاہیے کہ اسلام ایک ہی ہے وہ ہے14سوسال پرانا حضرت محمد ؐ کا اسلام کوئی شدت پسند, روشن خیال, جدید،قدامت پسنداسلام نہیں ہے
اس کے علاوہ اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنا ہوگا جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ مثلاً خاندانی نظام کا بکھرتا ہوا شیرازہ، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق ،اسلام کا تصور عدل،مساوات، تصور رحمت، جانوروں پر رحم ،ماحولیات کے تعلق سے اسلام کی تعلیمات وغیرہ۔ موجودہ دور کےمسائل کے بنیادی اسباب مثلاً سود، جوا، جمع خوری،قتل و غارت،ظلم، نسل پرستی، اباحیت وغیرہ پر تحریک چلانی چائیں اس میں غیر مسلموں کوبھی شامل کرنا ہوگا۔ فلاحی اداروں سے غیر مسلموں کے ضرورت مندوں کو بھی مستفیدکرنے کو فروغ دینا ہوگا۔ غیر مسلم تنظیموں کے ساتھ مشترکہ اقدار پر مل کر کام کرنا ہوگا ۔ کانفرنسیں اور سیمینار کرنے ہوں گے اور مسائل کے سلسلہ میں ایک علمی اور عملی فضا پیدا کرنی ہوگی۔بیرونی چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا ہے۔ میڈیا پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ہمیں ایسے افراد کی تیاری کرنی ہوگی جو میڈیا کے پروپیگنڈا کا فوری علمی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مسلمانوں کو حتی الوسع اپنے اخبارات نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں شائع کرنے ہوں گے۔ اسلامو فوبیا کو بطور مضمون نصاب مین شامل کرنا ہوگا۔ میڈیا میں سیکولر ذہن کے افراد سے گہرا ربط ضبط پیدا کرنا ہوگا اور ان سے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسانی بنیادوں پر تعاون لینا ہوگا۔ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہونے کے بجائے ان پر میڈیاپر لاکر مناسب قانونی چارہ جوئی کرنی ہوگی اور اس کے لیے دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون بھی لینا ہوگا۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد اس تاریکی میں امید کی کرن ہے: ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين (تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے تو تمہیں غالب رہوگے۔
دنیا میں پائیدار امن کے لئے مختلف مذاہب کو ایک دوسرے کا مذہبی جذبات کا خیال رکھنا ہوگا اور مخصوص واقعات کو مذہب کے ساتھ جوڑنے سے گریز کرنا ہوگا ورنہ دنیا کا امن خراب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا

Leave a Comment