سرجنز’ ڈاکٹرز”۔۔۔۔ مسیحائی یا قصائی…؟…. تحریر.. ملک ناصر صبور کھوکھر شورکوٹی

تحریر: ناصرصبورکھوکھر

“سرجنز’ ڈاکٹرز”۔۔۔۔ مسیحائی یا قصائی…؟

ڈاکٹرزمسیحا کہلاتے ہیں۔ مختلف امراض میں مبتلا دکھی انسانوں کی مسیحائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ انسان کو بنا کسی رنگ، نسل،مذہب اور خطہ کی تفریق کے درد سے نجات دلاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں یہ پیشہ معزز اور قابل ستائش پیشوں میں سے ایک ہے۔

وطن عزیز میں جہاں لاتعداد مسائل ہیں ان میں سے ایک صحت کا بھی ہے۔ بنیادی ضروریات اور بقا کی جنگ میں حالات سے لڑتے افراد کےلیئے بیماری اور اس پر اٹھنے والے اخراجات میں کسی بھی مصیبت سے کم نہیں ہوتے۔ حکومت لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولیات بہم پہنچانے میں ابھی تک ناکام نظر آتی ہے۔ خدا کرے کہ جلد صحت کے مسائل کو بھی ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

عوام الناس کا جم غفیر صحت کے مسائل کے حل کے لیئےنجی و سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتا نظر آتا ہے۔ نجی و سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز جن میں سے زیادہ تر میڈیکل کالجز میں حکومت پاکستان کے ہی خرچ سے ڈاکٹر بن پاتے ہیں، جس طریقے سے مریضوں کے ساتھ برتاو کرتے ہیں اس سے لگتا یوں ہے کہ جیسے وہ کوئی جیلر ہیں اور مریض بیچارے کسی جرم کی پاداش میں کوئی سزا بھگتنے ان کے پاس آئے ہیں۔

ایک ڈاکٹر بنانے میں حکومت پاکستان کا تقریبا 46 لاکھ روپیہ خرچ ہورہا ہے اور یہ رقم اسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ان ڈاکٹرز پر خرچ کی جاتی ہے۔ بیشتر ڈاکٹرز حضرات اس پیشے کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض پیسہ کمانے پر ساری توجہ مرکوز کر دیتے ہیں۔

عام آدمیوں کو سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں حقارت کے ساتھ دھتکارا جاتا ہے یہ تمام ڈاکٹرز حضرات عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسز سے اپنے مسند پر فائز ہوتے ہیں۔ سینئر ڈاکٹر حضرات تو محض حاضری کے لیئے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں اور وہاں بھی مریضوں کو اپنے نجی کلینک میں چیک اپ کروانے کا مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کما حقہ نئے ڈاکٹرز حضرات تو خیر ان سے بھی ایک قدم آگے دکھائی دیتے ہیں –

ایمرجینسی تک کے حساس شعبے میں یا تو موبائل سے چپکے گیمز اور میسج کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں یا پھر اس بدتمیزی سے مریضوں سے پیش آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
متعدد دلخراش واقعات نجی و سرکاری ہسپتالوں میں دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ چند دنوں پہلے ایک ہوش ربا واقعہ ایک نجی ہسپتال کا ہے جس کی تفصیل آگاہی کی خاطر پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

ایک نجی ہسپتال کے مشہور و معروف سرجن کے پاس گائنی کے مسئلہ کاشکارایک مریضہ کوعلاج کی غرض سے لایا جاتا ہے۔ گائنی مسئلہ کا شکارمریضہ کادرد ناقابل برداشت تھا۔نجی ہسپتال میں موجود گائنالوجسٹ کے پاس لایا گیا اورصحت کارڈ پر علاج کا جھانسہ دے کرعلاج شروع کردیا گیا۔ضروری ٹیسٹوں کے بعد مریضہ کا اپریشن تشخیص کیا گیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے دورانیہ کا اپریشن چار گھنٹے سے اوپر جاری رہا تو لواحقین کو کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی۔

مگر تشویش ظاہر کرنے پر ورثا کو نجی ہسپتال کےعملہ نے جھوٹ سچ بول کر مطمئن کردیا۔ اپریشن کے بعد ضروری ٹریٹمنٹ ہوئی۔ دو دن بعد نجی ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔ مگرگھر پہنچنے کے بعد درد میں شدت آتی گئی۔تقریبا پندرہ دن فون پر ڈاکٹر سے مسلسل رابطے میں رہے اور معالج کی تجویز کردہ دردکش ادویات کھلاتے رہے۔

مسلسل پین کلر ٹیبلٹس کھانے کے باوجود مثانہ اور گردوں میں درد کی شدت میں کمی واقع نہ ہوئی تو مذکورہ نجی ہسپتال سے دوبارہ پندرہ دن بعدفیزیکلی رابطہ کیا گیا۔ اس بار گردہ میں پتھری تشخیص کرکے علاج معالجہ شروع کردیا گیا۔ جوکہ مزید تقریبا ایک ماہ جاری رہامگر درد سے نجات ندارد۔ باالآخر ملتان یورالوجسٹ سے رابطہ کیا گیا۔ وہاں جاکر اصل معاملہ کی قلعی کھلی۔

مسلسل گردہ اور مثانہ میں درد کے باعث جب یورالوجسٹ نے الٹراساونڈ کیا تو گردہ میں پتھری تو نہ تھی البتہ کافی مقدار میں پیشاب اور گاڑھا مواد جمع ہوچکا تھا اور گردہ سے نکل کرآگے مثانہ کر طرف بہہ نہیں رہا تھا کیونکہ ظالم قصائی نما ڈاکٹر نے دوران بچہ دانی کے اپریشن کے وقت غیر احتیاطی برتتے ہوئے یوریٹر کو کاٹ ڈالا پھر اسی یوریٹر وین کو وہیں سٹچ کرکے بند کردیا-

جس کے باعث مریضہ کے درد کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور پیشاب کا اخراج دائیں گردہ سے نہ ہوسکا۔ بقول یورالوجسٹ اگر مزید دو چار دن اسی حالت میبں گزرجاتے تو گردہ ناکارہ ہوجاتا مگر مریضہ کی خوش قسمتی کہ اس پیچیدگی سے پہلے یورالوجسٹ کے پاس پہنچ گئی۔

ڈاکٹرصاحب تو یہی کہ کر تسلی دے رہے تھے کہ مزکورہ مریضہ بالکل ٹھیک ہے معمولی سی پتھری ہے جو ادویات سے خارج ہو جائے گی۔ مریضہ کا تقریبا 4 لاکھ صرف گردہ کی صحت مندی پر خرچ ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے جو گائنی معاملہ پر خرچ ہوئے وہ الگ سے ہیں جوکہ صحت کارڈ کی مد میں بٹورے گئے۔

ابھی تک مریضہ چلنے پھرنے اور کام کاج کے قابل نہیں ہوسکی۔ غریب عورت اوپر سے تین بچوں کی دیکھ بھال اور حالات کے بے رحم تھپیڑے اس نڈھال اور دکھیاری عورت کے لئے ناقابل برداشت ہے اور مریضہ بستر مرگ پر دن گن رہی ہے۔

جو ڈاکٹرز حضرات ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور اس پیشے کے وقار کو جانتے ہیں وہ واقعی مسیحا کہلانے کے لائق ہیں۔ اپنے پیشہ سے مخلص ڈاکٹرز کوکم سے کم اپنے پیشے میں چھپی کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی کرنی چاہیئے اور مزمت بھی۔ ڈاکٹر بن جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کسی قسم کے احتساب سے بالاتر ہو گئے یا کوئی آپ کے عیبوں پر تنقید نہیں کر سکتا۔عوام کے پیسے سے ڈاکٹرز کو تنخواہیں دی جاتی ہیں اور عوام اورعوامی نمائیندے اس پیسے کی ایک ایک پائی کا حساب لینے کا حق رکھتے ہیں۔

حکومت پنجاب سے پرزوراپیل ہےکہ ایسے ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کرنے کا عندیہ دے کر عوام کی فلاح کا احسن قدم اٹھائے۔ مہذب ممالک اور معاشروں میں ڈاکٹرز کو جو بے حد عزت و تکریم دی جاتی ہے وہ ان کے فرائض کی انجام دہی پر ہی دی جاتی ہے اور اگر کوئی ڈاکٹر اپنے پیشہ وارانہ امور میں ذرا سی بھی غفلت کا شکار ہو تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے اور اسے قانونی کاروائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر غفلت و بے اعتنائی برتنے کے بعد بھی کسی بھی قسم کے قانونی دائرے میں نہیں آتے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اور مرکـزی حکومت ڈاکٹرز کی غلط پیشہ وارانہ عادات و اطوار اور لالچ کے خلاف ایک مربوط قسم کی قانون سازی کریں۔

سب سے پہلے کسی بھی صورت میں ڈاکٹرز کی ہڑتال پر پابندی عائد کرنی چاہییے تا کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح سے ڈاکٹرز اور ادوایات کمپنیوں کے درمیان کمیشن لے کر مخصوص دوائیاں مریضوں کو استعمال کروانے کے جرم کو بھی روکنا چاہیئے۔

ڈاکٹرز کے ذرائع آمدن پر مکمل چیک رکھنا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو سب سے پہلے تمیز سے پیش آنے اور مریضوں کی دلجوئی کرنے کی ٹریننگ دلوانی چاہئے اور وہیں ہسپتال میں ایک شکایت کاونٹر بھی بنانا چاہیے جہاں مریض کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف شکایت درج کروائے اور فوری طور پر اس کی شکایات کے ازالے کا اونلائین مربوط نظام متعارف کروایاجائے۔
سرکاری ہسپتالوں میں خصوصا ایمرجینسی میں ڈاکٹروں کے موبائل فون استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے تا کہ وہ سارا دھیان مریضوں پر مرکوز کر سکیں۔

ہم سب کو بھی بطور شہری اپنی اپنی زمہ داریاں نبھانی چاہیئے۔ سرکاری ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز ہوں یا نجی کلینک میں پیسے کی ہوس میں مبتلا ڈاکٹرز ان سب کی اپنے پیشے سے کوتاہی کی صورت میں ان کا سماجی بائیکاٹ کیجئے۔ ان کو احساس دلایے کہ مسیحائی خدا کی ایک صفت ہے اور یہ صفت محض ڈاکٹری کا لائسنس مل جانے سے عطا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیئے دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر حضرات سے درخواست ہے کہ پیسہ تو کوٹھے اور چکلے چلانے والے بھی کماتے ہیں لیکن محض پیسہ ہی سب کچھ ہوتا تو پھر کوٹھے چلانے والے عزت و وقار کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ۔آپ اس پیشے کو مقدس رہنے دیجئے اسے ایک دھندا مت بنائیے۔ اور بالفرض اگر بہت پیسہ کمانے کی لالچ سے مجبور بھی ہیں تو اپنے پیشے کی حرمت کی لاج کا خیال رکھنا بھی مت بھولیے۔

انسانی زندگی کو بچانا اور درد سے نجات دینا پیسے یا کسی بھی آلائش سے بڑھ کر تسکین دہ بھی ہے اور انسانیت کی معراج بھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں آئے غریب لوگ یا سفید پوش حضرات آپ کے خوش اخلاق رویے سے ویسے ہی آدھے تندرست ہو جائیں گے یقین نہ آئے تو آزمائش شرط ہے۔ ازراہ کرم مسیحائی بننے کی کوشش کیجئے نہ کہ قصائی۔

شیخ غلام مصطفٰی سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز 923417886500 +

Leave a Comment