تحریر !مسرت ریاض جعفری
عنوان ۔آب بیتی
میں امید کرتا ہوں میرے تمام بہن اور بھائی خیر و عافیت سے ھوں گے اور اللّه پاک کی حفظ و امان میں ھوں گے ۔معذرت کے ساتھ کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے کچھ آپ کے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر میسج پڑھتا بھی ھوں –
اور دیکھتا ھوں اور کبھی كبهار آپ بھائیوں کو جواب دے دیا اور کبھی آپ لوگوں کے دل جیتنے کے لیے اپنی زبان کو ساکت رکھا کیونکہ میں سمجھتا ھوں بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے کردار کی بنا پر لوگوں کے دل کی دھڑکن بن کر رہے ۔۔۔
تھوڑا سا اور مختصر سا آپ لوگ میرا آج تعارف بھی سن لے جو مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے صرف سوشل میڈیا کی زینت سمجھ کر جانتے ھیں ۔۔۔
میرا نام مسرت ریاض جعفری ھے چغتائی /چوغتہ ملک برادری سے تعلق رکھتا ھوں ۔کامرس کی فیلڈ میں گریجوایشن کی ڈگری کر رکھی ہے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے میرے والد محترم ریٹائرڈ بینک منیجر ایچ بی ایل-
میرے دادا ابو سرکاری اسکول ٹیچر و ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ میرے پڑدا ابو ملک فتح محمد محکمہ حیوانات کے جونیئر ڈاکٹر رہے کیونکہ اس وقت سستی زمینیں تھی تو میرے گھرانے کے لوگ پڑھے لکھے تھے-
ان نے ایک مربع کے لگ بھگ زمینیں بنا لی میرے ابو ساری کمائی اپنے والد صاحب کو دیتے اوكاڑا شہر میں اس وقت جاب کرتے تھے تو ہماری زمین مشترکہ هونے کی وجہ سے تمام بہن اور بھائیوں میں تقسیم هو گی ھر خاندان میں ایک بندہ قربانی دینے والا ہوتا ہے-
جس کا ثمر اس کے بہن بھائی یا ان کی اولاد کھاتی ھے اور تا حیات کھاتی ھیں جو قربانی دیتا ہے اس انسان کو اور اس کی اولاد کو قربانی کے بکرے کی طرح آخر پر قربان ہونا پڑھتا ھے جس کا بعد میں بھی رشتہ دار اور دوست بڑی عید مطلب قربانی کے گوشت کے طور پر بوٹیاں کھاتے ھیں اور ڈکار مار کر پتا بھی نہیں چلنے دیتے –
کس جانور یا انسان کا گوشت کھایا ۔پھر میرے والد صاحب پر بہت عرصہ کچھ مشکلات کے دن آگے اور جن کے لیے وہ قربانی دیتے تو سب لوگ آھستہ آھستہ پیچھے ہٹ گے خیر مشکل وقت کسی پر بھی آئے وہ جنگ آپ کو یا آپ کے فیملی ممبران کو ہی لڑنی پڑتی ہے –
۔میرے دادا ابو علاقہ کے پنجائتی تھے اور ہمارے گھر میں پانچ ،پانچ نوکرانیاں کام کرتی تھی ۔۔۔میں ذاتی طور پر ٹیچرز فیملی کا بیٹا هونے کے ناطے کیونکہ میرے خالو ٹیچر آگے ان کے بیٹے میرے ماموں ٹیچر میرے چاچوں ٹیچر میری کچھ کزن بہنیں ٹیچر هونے کی وجہ سے میرا تعلق علم و ادب کے گھر سے تھا –
اور میں علم و ادب میں اپنا لوہا منوانا چاھتا تھا جو الحمد اللّه پرنٹ میڈیا کے پلیٹ فارم سے منوا دیا بطور پاکستان کا کالم نگار کی حیثیت سے ۔
اور کسی بھی سیاسی اور سماجی شخصیت سے دوستی رکھی تو اپنے علم و ادب کی بنیاد پر نہ کہ اسکا بینک بیلنس،کوٹھیاں یا لینڈ کروزر دیکھ کر نہیں –
جس نے بچپن میں وہ چیزیں زمینیں اور پیسے دیکھے ھوں جو آج کے دور کے جوان لڑکپن میں بھی شاید نہ دیکھ سکے گے تو پھر اللّه پاک کی ذات پاک کے ناشکرے انسان کیوں بنے ؟؟
آج بھی میں جس علاقہ میں جاتا ھوں-
حالانکہ اپنے ضلع جھنگ تھوڑا یا زیادہ نام ہے پھر بھی مجھ سے زیادہ میرے دادا ابو کے نام سے مجھے لوگ جانتے کہ مسرت بیٹا آپ کے دادا ابو نے ہمارے قتل کے کیس میں 302 کی صلح کروائی تھی کوئی کہتا ہے آپ کے دادا ابو نے ہماری اس وقت داد رسی روپے پیسے سے کی تھی –
جب ہم محض غریب تھے اور آج انکی وجہ سے کروڑوں پتی ھیں تو دلی مسرت ہوئی کہ شکر الحمد اللّه میرے خاندان کو لوگ اچھے کاموں اور ان کے نیک ناموں سے مخاطب کرتے ھیں ۔
آج میں ہزار مربعے کا کوئی سیاسی و سماجی شخصیت یا کسی علاقہ کا کوئی سردار هو تو اس کے سامنے جب ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر بیٹھتا ھوں تو پیچھے میرے سات مرلہ کا مکان بھی کبھی نہیں بھولتا بیشک ہماری نظر آسمان پر ہونی چاہئے لیکن پاؤں ہمیشہ زمین پر ۔۔۔۔۔
تو آج جو بھی میں کسی کے ساتھ ایک فیصد یا جتنا فیصد مجھ سے لوگوں کے کام کرتا ہوں تو مجھے دلی مسرت ہوتی ہے کہ اللّه پاک ان نیک کاموں کا اجر میرے فیملی ممبران کو پہنچا ۔
اور سب سے مجھے خوشی میرے فیملی ممبران میرے والد محترم نے یہی سمجهایا کہ مسرت بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور سچے لوگوں کا ساتھ دینا اس لیے میں بڑے بڑے لوگ بیشک وہ وزیر داخلہ کوئی هو یا وفاقی وزیر خوراک ان کی سوچ سے بھی زیادہ ان کے کام نہ کرنے کی حیثیت ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں کیونکہ جب ضمیر میرا مر گیا پھر اسی دن اپنی زبان اور اس کے الفاظ بھی ساکت کر دوں گا ۔۔۔۔
کچھ موصوف بچے لکھتے ھیں سوشل گروپ میں فلاں سیاسی کا مین ووٹر یا شپوٹر ھوں تو ان کے لیے عرض یہی ھے ہم کسی سیاسی کے گاڑی تکنے والے لوگ نہیں ھیں بلکہ انکی محبت میں جان لٹانے والے لوگ ہیں باقی کوئی کتنا ورکر ھے سیاسی لیڈر اور حلقہ کی عوام کو سب پتا ہوتا ہے . . . . .
شیخ غلام مصطفیٰ سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ ان لائن نیوز نیٹ ورک 923417886500 +