پیغامِ زندگی
سسکیاں لیتی پریشان زندگی کے لیے اُمید کی کرن
عنوان : دین سے دوری، دل کی بے قراری
تحریر: ڈاکٹر اعجاز علی چشتی
(بانی و نگران: پیغام سوسائٹی احمد پور سیال)
انسان جب حالات کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو سب سے پہلے تقدیر سے شکوہ کرتا ہے، وقت کو الزام دیتا ہے اور خود کو بے بس سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ حالات کی سختی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بنیاد کمزور کر لی ہوتی ہے۔ دل بے چین ہو جاتا ہے، روح تھک جاتی ہے اور زبان پر سوال آ جاتا ہے:
یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں؟
بس ایک کام کرو…
دین کو قائم کرنے کی کوشش کرو۔
اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم از کم اپنے اوپر تو قائم کرو نا۔
اپنی نیت درست کرو،
اپنے عمل کو سنوارو،
اپنی زبان کو جھوٹ اور تلخی سے بچاؤ،
اور اپنے دل میں اللہ کی یاد کو زندہ رکھو۔
یقین رکھو! جب دین انسان کے اندر زندہ ہو جاتا ہے تو بے قراری سکون میں بدلنے لگتی ہے۔ دکھ آزمائش بن جاتا ہے، محرومی حکمت میں ڈھل جاتی ہے اور اندھیری رات کے پردے سے امید کی روشنی جھانکنے لگتی ہے۔ اللہ اپنے بندے کو آزماتا ضرور ہے، مگر اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ آنسو بھی دیکھتا ہے، سجدے بھی گنتا ہے اور ٹوٹے دل کی صدا بھی سنتا ہے۔
پھر دیکھنا…
دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا،
راستے خود بنتے چلے جائیں گے،
اور وہ دروازے کھلیں گے جن کا کبھی گمان بھی نہ تھا۔
جب رب راضی ہو جاتا ہے تو اپنے “کُن” سے سب بدل دیتا ہے،
اور تقدیر میں وہ سب لکھ دیتا ہے
جو کبھی تم نے آنسوؤں میں مانگا تھا۔
اور ہاں…
مجھے بھی دعا میں یاد رکھنا۔
کیونکہ دعا وہ طاقت ہے
جو ٹوٹے حوصلوں کو جوڑ دیتی ہے
اور وہ چراغ ہے
جو گھپ اندھیروں میں بھی بجھتا نہیں۔
پیغامِ زندگی
اعجاز علی چشتی کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
خوش رہیں… خوشیاں بانٹیں۔
شیخ غلام مصطفیٰ سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز نیٹ ورک 923417886500 +