وریام والا ڈکیت فرار کیس کے حقائق۔
فرار ڈکیت گینگ جو کے پورے پنجاب میں وارداتوں میں ملوث تھے اور قریب میں ہی تھانہ وریام اور تھانہ چٹیانہ کی حدود میں کافی ساری وارداتیں کیں، جن کی ڈھونڈ میں متعلقہ پولیس ایس ایچ او وریام والا واصف علی نول اور انچارج چوکی نجم کی سربراہی میں اور آئی ٹی ٹیم کی خدمات کی بدولت پچھلے 2’3 ماہ سے اس گینگ کے پیچھے دن رات محنت کررہے تھے-
اور اس بابت انہوں نے ننکانہ صاحب، ہارون آباد، بہاولنگر ، ساہیوال اور لاہور تک ریڈ کیے اور بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بالاآخر ان ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے-
چونکہ ڈکیت بہت ساری وارداتوں میں ملوث تھے اور لوگوں کا کروڑوں میں نقصان کیا ہوا تھا لیکن قانونی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ ہر گرفتار بندے کو اندر چوبیس گھنٹے متعلقہ مجسٹریٹ پیش کرنا ہوتا ہے اس نے یا تو ریمانڈ دینا ہوتا ہے یا جیل بھیج دینا ہوتا ریمانڈ بھی دو دو دن کا اور وہ بھی ذیادہ سے ذیادہ چودہ دن کا اور اس دوران پولیس اتنی بڑی گینگ سے نہ تو ریکوری کرواسکتی ہے نہ صیحیح طریقے سے تفتیش سر انجام پہنچ پاتی ہے-
اور بالآخر وہی ملزمان کچھ عرصے بعد ضمانت کرواکے دندناتے پھرتے ہیں، اور غریب عوام داد رسی سے محروم ہو جاتی ہے، اس کیس میں بھی واقعات کچھ اس طرح کے تھے اور ایس ایچ او اور چوکی انچارج کی نیک نیتی یہ تھی کہ ان ملزمان کو تھانے سے باہر رکھ کے ان سے ذیادہ سے ذیادہ لوگوں کا لوٹا ہوا مال ریکور کیا جائے اور دوسرا ان کے سرغنوں تک پہنچا جائے-
، جو کہ تھانہ میں رکھ کے یہ سب کرنا ناممکن تھا، اور انکو کسی پرائیویٹ جگہ پہ رکھا گیا جہاں پہ کچھ ملازموں کو پہرے دار بھی بنایا گیا اور روزانہ کی بنیاد پہ تفتیش کو آگے بڑھایا جارہا تھا، مگر افسوس کہ 2’3 کانسٹیبلان کی غفلت کی وجہ سے ڈکیت گینگ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا-
جسکا سب سے ذیادہ دکھ ایس ایچ او سمیت اس ساری ٹیم کو ہے جنہوں نے تین ماہ کی جاں کش محنت کے بعد انکو گرفتار کیا تھا، اور نیک نیتی یہ تھی کہ ان سے ریکوری کروائی جائے، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہ محکمہ کے اعلی افسران نے ایک لمحے میں انکی ساری محنت کو بجائے سراہنے کے ایس ایچ او اور انچارج چوکی کو حوالات بھیجنا مناسب سمجھا،
بجائے اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے انہیں مشکل میں ڈال دیا، اس سے مزید پولیس افسران کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے حالانکہ تقاضہ یہ تھا کہ اس پہ انکوائری کروائی جاتی جو کوئی ذمہ دار تھا اسے سزا دی جاتی، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایس ایچ او جو کہ پورے تھانے اور علاقے کا ذمہ دار ہے چند پیسوں کی خاطر اتنے بڑے گینگ کو چھوڑدے-
میڈیا پہ منفی کمپین محض تعصبانہ چلائی جارہی ہے کو خلاف واقعات ہے اور جسکا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے حالانکہ ان دونوں افسران کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو دونوں نے بہت سے ٹارگٹ حاصل کیے ہوئے ہیں، اور انکی محنت محکمہ کے لیے مثالی ہیں لیکن محکمہ نے ہر چیز پس پشت ڈالتے ہوئے انکے خلاف کاروائی ہی مناسب سمجھی۔
سچ جان کر جیو اور منفی کمپین بند کرو ورنہ پولیس افسران کی حوصلہ شکنی ہوگی اور جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ افزائی۔
تھانہ وریام والا کے ایک ملازم بھی حقائق بتاتے ہوئے
اج ایک بھائی کی تحریر پڑھی ہے جس میں صاحب موصوف فرما رہے تھے کہ واصف علی خان SHO تھانہ وریام اور نجم عباس ASI نے بھاری رقم کے عوض سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کو بھگا دیا ہے، ایسے بندے کی سوچ اور عقل پر سوائے افسوس کے کچھ نہی کہا جا سکتا۔
چونکہ میں بھی اس تھانہ میں ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہوں زرا حقائق سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ اصل میں ایس ایچ او اصف علی خان جو کہ تھوڑے ہی عرصہ پہلے تھانہ میں بطور ایس ایچ او تعینات ہوئے ہیں جنہوں نے تھانہ میں بڑھتی ہوئی واردات کو مدنظر رکھتے ہوئے نجم عباس اے ایس ائی کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی ٹیم بنا کے جس میں ائی ٹی برانچ کا ایک بندہ بھی شامل تھا اور ڈیٹا اکٹھا کر کے پورے پنجاب میں تقریبا دو ماہ ان تھک دن رات محنت کر کے ان پانچ بندوں کو گرفتار کیا ہے –
یہ بات راز میں رکھنا چاہتا ہوں وہ کیسے انہوں نے تھانے میں رکھے ہیں یا باہر رکھے ہیں وہ ایک الگ بات ہے اس بات کو چھوڑیں لیکن بدقسمتی سے یہ بندے فرار ہو گئے ہیں کیسے فرار ہوئے ہیں وہ بھی میں راز فاش نہیں کرنا چاہتا لیکن اس میں جو ہمارے دوست نے لکھا ہے کہ ایس ایچ او صاحب اور نجم عباس نے پیسے لے کر ان بندوں کو چھوڑا ہے –
میرے بھائی ان دونوں بندوں نے چھوٹی سی ٹیم بنا کے دو ماہ ان تھک محنت کر کے ان بندوں کو گرفتار کیا ہے اور یہ کہنا کہ انہوں نے طمع نفسانی کی خاطر بندے چھوڑے ہیں بہت افسوس کی بات ہے اگر لالچ ہوتا تو پکڑتے ہی کیوں۔ بس قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ ان دو افسران کی ان تھک محنت لگن کو داد دینی چاہیے۔ اللّٰہ پاک ہمارے سب و ملازمان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ۔
شیخ غلام مصطفٰی سی ای او و چیف ایڈیٹر جھنگ آن لائن نیوز 923417886500 +وٹس آپ